Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

شدید سردی میں وہ گرم شامل سے بے نیاز بالکونی میں چکراتی پھر رہی تھی  بار بار اس کی نگاہیں صحن کے اس حصے میں بنے کمرے کی طرف اٹھ رہی تھی۔

وہ کمرہ چند دنوں قبل ہی تیار ہوا تھا اور بلاشبہ وہ اس گھر کے دوسرے کمروں میں بہت خوبصورت اور جدید دور کے تقاضوں سے مزین تھا۔ گلفام نے اس کمرے کو محل بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ مگر ماہ رخ کے خوابوں کی پرواز بہت بلندی پر تھی  وہ کمرہ اس کے خوابوں کی گرد بھی نہیں پا سکتا تھا  جس کو اس کی ماں اور چچی دن میں کئی کئی بار دیکھتی تھیں اور اس کے نصیب پر رشک کرتی تھیں۔
اب گھر میں اس کی اور گلفام کی شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں جیسے جیسے تیاریاں زور پکڑ رہی تھیں اس کا دل بے چین ہونے لگا تھا۔

خوابوں کی تتلیاں مٹھی سے نکلنے کو تھیں۔
(جاری ہے)

خواہشوں کے گلاب کھلنے سے قبل ہی مرجھانے کو تھے۔

اعوان سے رابطہ ہونے کی کوئی سبیل دکھائی نہ دے رہی تھی۔ ساحر سے وہ کئی بار مل چکی تھی ہر بار یہی مایوس کن جواب سننے کو ملتا تھا  کہ ابھی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
اس بار وہ ملی تو ساحر نے پریشان اور روتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا کہ وہ دو تین دن میں اپنے فرینڈز کے ذریعے اعوان کا پتا معلوم کروائے گا اور اسے کنفرم رپورٹ دے گا۔ دو تین دن گزر چکے تھے اور اس کو موقع نہیں مل رہا تھا وہ ساحر سے جا کر معلوم کرے کہ اعوان کے بارے میں اس کو معلومات ملیں یا نہیں؟

”رخ! اتنی سردی میں تم بغیر شال اور سوئٹر کے یہاں موجود ہو  کیا ہوا ہے؟ کیوں اس قدر پریشان دیکھائی دے رہی ہو؟“ گلفام کے بھاری لہجے میں بے حد محبت اور تفکر تھا۔

”اس کی آواز پر وہ چونک کر اپنے خیالوں سے نکلی تھی۔

”ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ میں پوچھ رہا ہوں کیا ہوا ہے تمہیں؟“ اس نے اپنی گرم شال اس کے سر پر اوڑھاتے ہوئے استفسار کیا۔

”کتنی خوبصورت آواز ہے تمہاری۔ کاش! اتنے خوبصورت تم خود بھی ہوتے تو میں… شاید دولت کی چاہ نہ کرتی اور خوشی سے تمہاری ہو جاتی کہ حسین ہم سفر کا ساتھ دل کو بڑا سکون دیتا ہے  مجھے حسن اور حسین چہروں سے بڑی محبت ہے مگر افسوس تمہارے پاس نہ صورت ہے اور نہ دولت۔
صرف محبت ہے اور محبت سے خواہشیں پوری نہیں ہوتی ہیں۔“ اس نے سوچتے ہوئے گہری سانس لی اور گویا ہوئی۔

”تم کو معلوم نہیں سیاہ فام! اس گھر میں مجھ پر پہرے لگنے لگے ہیں۔ میں اپنی مرضی سے کہیں جا بھی نہیں سکتی ہوں۔“

”یہ کیسے ہو سکتا ہے رخ! کون قید کرے گا تم کو یہاں؟“

”میری امی اور کون؟ ان کو ہی مجھ پر بھروسا نہیں ہے۔“

”نہیں نہیں رخ! تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔
تائی جان تو تم سے بہت محبت کرتی ہیں  بھروسا کرتی ہیں۔“ وہ مسکرا کر پراعتماد لہجے میں گویاہ وا تھا۔

”تم کو کیا معلوم؟ تم تو آرام سے گھر سے نکل جاتے ہو۔“

وہ شال کو اپنے گرد لپیٹتی ہوئی بولی۔ اس کے عمل کو گلفام نے بڑی پسندیدگی سے دیکھا تھا  یہ ٹھنڈک اسے بڑی پرکیف حدت میں بدلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

”آج کل میں تمہارے لئے فون لگوانے کیلئے کوشش کر رہا ہوں  تم چاہتی ہو نا گھر میں فون ہو بس سمجھو دس پندرہ دنوں میں فون بھی لگ جائے گا گھر میں۔

”دس پندرہ دن… ہونہہ!“ وہ بے پروائی سے منہ بگاڑ کر گویا ہوئی اور گلفام بے چین ہو گیا۔

”کیا ہوا تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟ میں تو سوچ رہا تھا تم بے حد خوش ہو گی یہ خوشخبری سن کر۔“

”خوش ہوں مگر اصل خوشی اس وقت ہو گی جب امی مجھے اپنی دوستوں سے ملنے کی اجازت دیں گی۔“

”تمہاری ایک بھی دوست اس گھر میں نہیں آئی پھر تم کیوں ملتی ہو ایسی دوستوں سے جو تمہارے گھر آنا پسند نہیں کرتی ہیں۔

”چھوڑو ان باتوں کو  پلیز امی سے اجازت لے دو نا۔“

###

گرم آگ برساتے ہوئے موسم نے بڑی دعاؤں کے بعد کروٹ بدلی تھی  گرمی  حبس اور گھٹن میں اب آبر آلود موسم نے جان سی ڈالی تھی  شعلوں کی طرح لپکتی ہواؤں میں قدرے ٹھنڈک آ گئی تھی۔ جس میں کبھی کبھار ہلکی پھلکی پڑتی پھوار سکون دینے لگتی تھی۔

آج بھی موسم سہانا تھا ان سب کے ساتھ دادی جان بھی لان میں آ بیٹھی تھیں  چائے کے ساتھ سموسے اور پکوڑے موجود تھے۔

”آج تو بارش ہو گی اماں جان! محکمہ موسمیات نے پیشن گوئی کی ہے۔“ مذنہ نے گہرے بادلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔

”وہ لوگ تو گزشتہ دو ہفتوں سے پیشن گوئی کر رہے ہیں مگر بارش نہیں ہو رہی ہے  بادل آتے ہیں اور بن برسے چلے جاتے ہیں۔“

”دادی جان! یوں کہیں نا ٹھینگا دکھا کر چلے جاتے ہیں۔“ عائزہ مسکرا کر گویا ہوئی تھی۔

”اس میں بادلوں کا کیا قصور بچی! سارا قصور تو ہمارے اعمالوں کا ہے  جیسے اعمال ہیں ویسے ہی حالات ہمارا مقدر بن رہے ہیں۔“ وہ ایک آہ بھر کر دکھی انداز میں گویا ہوئیں۔

”بات کوئی بھی ہو دادی جان! آپ اعمالوں کا ذکر لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔“ عادلہ نے خاصے با ادب انداز میں تیکھا سوال کر ڈالا تھا پہلے تو انہوں نے تیز نگاہ اس پر ڈالی تھی پھر گویا ہوئی تھیں۔

”ہماری زندگی کا دارو مدار ایمان اور اعمال پر ہے ہم اپنی طرف نہیں دیکھتے  اپنے اعمال کا جائزہ نہیں لیتے کہ ہم کتنی نیکیاں کر رہے ہیں؟ کتنے گناہ ہم سے سرزد ہو رہے ہیں؟ سب سے زیادہ شرمناک بات تو یہ ہے کہ ہم گناہ اور نیکی کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔“

”اماں جان! خدا گواہ ہے ہم تو حتیٰ الامکان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں  اللہ بچائے یہ دور تو بے حد خراب ہے۔
“ صباحت دبے دبے لہجے میں گویا ہوئی۔

”میں سوچتی اور لرز جاتی ہوں  شرم سے پانی پانی ہونے کو دل کرتا ہے  جب تاریخ ہمیں بتاتی ہے مختلف اقوام پر نازل ہونے والے عذابوں کے بارے میں کہ کون سی قوم کن اعمال کے سبب سزا میں گرفتار ہوئی  تو میں اپنے حال کو دیکھتی ہوں اور میرا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ کل ہم بھی تاریخ کا حصہ بنیں گے تو انگشت نمائی صرف اور صرف حکمرانوں کی طرف نہیں اٹھائی جائے گی بلکہ ہمیں بھی کہا جائے گا کہ ہم ایسے بداعمال اور گناہ گار لوگ تھے کہ جن کی بد اعمالیوں کے باعث ان پر ایسے سخت دل اور بے مہر حکمران مسلط کئے گئے تھے۔
“ دادی جان کے چہرے پر آنسوؤں کی لڑیاں بہہ نکلی تھیں  عادلہ اپنی بات کا یہ ردعمل دیکھ کر بھونچکا رہ گئی تھی۔

”ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں آپ  ہم درحقیقت گناہ اور نیکی کا فرق بھولتے جا رہے ہیں اور تنزلی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔“ مذنہ نے افسردہ لہجے میں کہا۔

”ماحول میں ایک بے معنی سی خاموشی طاری ہو گئی تھی جس کو صباحت کی چونکا دینے والی آواز نے مخدوم کیا تھا۔

”بہت بہت مبارک ہو اماں جان آپ کو اور بھابی جان آپ کو بھی۔“ عادلہ کے اشارہ کرنے پر معنی خیز لہجے میں گویا ہوئیں۔

”کس بات کی مبارک باد بہو؟“ اماں کو ان کا انداز چونکا گیا تھا۔

”یقینا کوئی اچھی بات ہوئی ہے۔“ مذنہ مسکرا کر بولیں۔

”حیرت کی بات ہے اماں! یہ آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں؟ کیا آپ کو طغرل اور پری نے نہیں بتایا؟“ وہ خاصے ڈرامائی انداز میں محو گفتگو تھیں۔

”بہو! یہ کیا پہیلیاں بوجھ رہی ہو  جو بات ہے صاف صاف کہو  ایسی کیا بات ہے جس پر تم ہم سے کسوٹی کھیل رہی ہو؟“ ان کے بارعب انداز پروہ چونک کر سیدھی ہوئی تھیں۔

”طغرل نے پری کو پرپوز کیا ہے وہ مذنہ کی طرف دیکھتی ہوئیں کاٹ دار لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔

”ارے یہ کب ہوا؟ مجھے تو خبر نہیں ہے تم نے کہاں سے سن لیا؟“

صباحت اور عادلہ کو ان کی خوشگوار حیرت دیکھ کر دکھ و غم کا جھٹکا سا لا تھا  وہ سوچ رہی تھیں اماں جان کو شاید ہی افسوس ہو کہ ان کے لاڈلے نے ان کو بتانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی مگر صباحت کس طرح وہ سب برداشت کر سکتی تھیں؟ یہ سب ان کی سوچوں کے برعکس ہوا تھا اور ان کے اندر حسد و رشک کی آگ زیادہ بھڑکنے لگی تھی  اسی دم چائے کی ٹرے اٹھائے پری بھی وہاں آ گئی تھی۔
صباحت نے چبھتے لہجے میں پری سے کہا۔

”پری! تم نے اماں جان کو بھی نہیں بتایا؟ اتنی بڑی بات ہضم کئے بیٹھی ہو۔ میں اور تمہارے پاپا اس قابل نہیں تھے تمہاری نظر میں تو کم از کم اپنی دادی کو تو بتا سکتی تھیں کہ تم کو طغرل نے پرپوز کیا ہے  شادی کرنا چاہتا ہے وہ تم سے۔“ مذنہ آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں سے اگر چائے کی ٹرے پکڑ نہ لیتیں تو وہ زمین بوس ہو چکی ہوتی اس بات کو وہ یاد کھنا بھی نہیں چاہتی تھی جس کا وہ پروپیگنڈا کئے بیٹھی تھیں۔

”تم ماں ہو  بس ماں بن کر رہو  تھانیدارانی بننے کی قطعی ضرورت نہیں ہے تمہیں صباحت! اگر طغرل نے پری سے شادی کی خواہش کی ہے تو کوئی گناہ نہیں کیا ہے  ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے مرد و عورت کو اپنی پسند سے شادی کرنے کی۔“

”یہ اجازت گھر والوں کو نہیں ہے کہ ان کو بھی بتایا جائے  ایسی بھی بے حیائی نہیں ہوئی ہے کہ سیدھے سیدھے لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے ایجاب و قبول کرنے لگیں۔
“ مارے غم و غصے کے صباحت چیخنے چلانے لگی تھیں جبکہ مذنہ بالکل خاموش بیٹھی تھیں۔ پری کی رنگت سپید پڑ گئی تھی۔

”یہ تو وہ ہی بات ہو گئی  لڑکا لڑکی راضی…“

”بس! اب بہت بول چکی ہو تم  رائی کا پہاڑ بنانا تمہاری پرانی عادت ہے  کتنی بار سمجھایا ہے بیٹیوں کے معاملے میں اس طرح حلق پھاڑ کر بیان نہیں کئے جاتے ہیں  نرمی اور احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔
“ وہ ان کی بات قطع کرکے قدرے غصیلے لہجے میں بولی تھیں۔

”بیٹی؟ ہونہہ… یہ میری بیٹی ہے اس کا یقین آ گیا ہے۔“

”صباحت! تم کو غصہ کس بات کا آ رہا ہے  پری کے نہ بتانے پر یا طغرل کی شادی کی خواہش ظاہر کرنے پر؟“ اماں نے ان کی گویا دکھتی رگ چھیڑی۔

”یہ… یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ میں کیا حسد کروں گی پری سے؟“

”خوشی کے اظہار کے یہ طریقے تو نہیں ہوتے ہیں۔

”دادی جان! آپ نے ہم بہنوں میں اور پری میں جو فرق رکھا ہے  اس کا یہی نتیجہ ہے جو آپ اس طرح کہہ رہی ہیں۔“ عائزہ اٹھتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔

”پری جو کرے وہ جائز ہو جاتا ہے اگر ایسا ہم میں سے کوئی بہن کر لیتی تو آپ ہمیں معاف ہی نہیں کرتیں اور پاپا سے الگ ہماری شکایتیں کرتیں۔“ عادلہ بھی عائزہ کی طرح نڈر انداز میں گویا ہوئی تھیں۔

”یہ سب کیا ہو رہا ہے عادلہ  عائزہ! مجھے فیل ہو رہا ہے آپ لوگ اماں کی طرف سے کسی بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں  ورنہ میں نے اماں کو آپ سے یکساں پیار کرتے پایا ہے۔“

”ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بھابی! دراصل یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے  چھوٹی چھوٹی سی باتیں بھی بڑی بڑی محسوس ہوتی ہیں۔ چلو عادلہ  عائزہ! اماں جان سے سوری کرو۔“ صباحت کو دیر سے اپنے اور ان کے سخت رویئے کا احساس ہا۔

”سوری دادی جان!“ وہ مسکراتی ہوئی ان کے قریب آئی تھیں۔

”اچھا ٹھیک ہے بھئی  جاؤ معاف کیا میں نے۔“ اس وقت وہ کسی گہری الجھن کا شکار تھیں۔

”مذنہ! طغرل کو فون کرو وہ فوراً گھر آئے۔“

   1
0 Comments